ساس کےجانے کے بعد گھر‘ باہر اور بچوں کی یعنی تینوں ذمہ داریاں مجھ پر آپڑیں اور میں ہل کر رہ جاتی مگر کہتے ہیں نہ کہ خدا ہر ایک کا ساتھ ضرور دیتا ہے لہٰذا خدا نے مجھے بھی سکھادیا کہ میں کیسے اپنے کام انجام دوں؟
چند ماہ پیشتر خواتین کے خطوط میں ایک بہن جو ملازمت پیشہ ہیں انہوں نے ’’ام اوراق‘‘ سے کھانا محفوظ رکھنے کا طریقہ دریافت کیا ہے اس ضمن میں عرض ہے کہ بہن میں بھی ملازمت پیشہ ہوں اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں واقعی ملازمت پیشہ خواتین کو گھر کے کاموں میں دشواری ہوتی ہے مگر تھوڑی سی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کو اپنا کر ہم اپنی خوش اسلوبی سے بآسانی اس پر قابو پاسکتے ہیں۔ میں شادی سے پہلے سے ہی جاب کرتی تھی اور مقامی کالج میں لیکچرار تھی‘ بڑے مزے کی زندگی گزر رہی تھی‘ وقت پر ناشتہ امی بناکر میز پر رکھ دیتیں اور آواز دے کر بلاتیں کہ یہ ٹائم ہوگیا ہے ناشتہ کرلو اور جب دوپہر میں تھکی ہوئی گھر پہنچتی تو امی کو صاف ستھرے گھر میں کھانا بناتے ہوئے دیکھتی ماسی سبزی وغیرہ کاٹ رہی ہوتی تھی ساتھ میں مَیں بھی سلاد وغیرہ بنانے میں مصروف ہوجاتی اور کھانا ٹیبل پر لگاتی‘ سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے بہت اچھا لگتا تھا مگر شادی کے بعد یہ سکون کہاں؟ اوپر سے میرا سسرال حیدر آباد سے دور ضلع کنڈیارو میں تھا جبکہ میری جاب حیدر آباد میں لہٰذا حیدر آباد میں کرائے کا گھر لے کر نئی زندگی کا آغاز کیا شروع شروع میں بڑی مشکلات اٹھائیں اوپر تلے بچے پیدا ہوئے یعنی شادی کو دو سال ہوئے نہیں کہ دو بچے گود میں آگئے ایسے میں میرے شوہر کی پوسٹنگ بھی دوسرے شہر میں تھی لہٰذا گھر کے اور باہر کے کام تقریباً مجھے ہی کرنا پڑتے تھے اوپر سے بچے چھوٹے جن کو زیادہ نگہداشت کی ضرورت تھی دوسری میری ملازمت کی ذمہ داریاں اور گھر کے تمام کام اس وقت میری امی جان کی پرانی ملازمہ جو انتہائی ضعیف اور قابل اعتماد تھی وہ میرے گھر میں بچوں کے ساتھ رہنے کیلئے آمادہ ہوگئی اور مجھے اتنا سہارا مل گیا کہ جب کالج میں ہوتی تو یہ اطمینان ہوتا کہ میرے بچوں کے پاس کوئی بیٹھا ہے۔ ویسے تو بچوں کی پیدائش کے وقت میری ساس بھی گائوں سے آجاتی تھیں مگر وہ مستقل نہیں رہ پاتی تھیں کیونکہ ان کا اپنا گھر کنڈیارو میں تھا‘ ساس کے جانے کے بعد گھر‘ باہر اور بچوں کی یعنی تینوں ذمہ داریاں مجھ پر آپڑیں اور میں ہل کر رہ جاتی مگر کہتے ہیں نہ کہ خدا ہر ایک کا ساتھ ضرور دیتا ہے لہٰذا خدا نے مجھے بھی سکھادیا کہ میں کیسے اپنے کام انجام دوں؟سب سے پہلی چیز جو میں نے اپنائی وہ سویرے اٹھنے کی عادت تھی خیر صبح فجر کے وقت تو میں ہمیشہ سے ہی بیدار ہوتی تھی اور نماز و قرآن پڑھنے کے بعد ہی اپنے دن کے کاموں کا آغاز کرتی تھی مگر اب میں نے صبح چار بجے بیدار ہونا شروع کردیا تاکہ میں صبح آٹھ بجے کالج جانے سے پہلے گھر کے کام جس قدر ممکن ہوسکے نمٹا سکوں۔ میں نے گھر کے کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر تقسیم کیا: پہلی ترجیح: بچوں کے کام یعنی فیڈر بوائل کرنا‘ پانی ابال کر تھرموس میں رکھنا‘ دودھ بنانے کیلئے‘ بچے کی صفائی وغیرہ۔
دوسری ترجیح: کھانا پکانے کے کام جو نہایت ضروری ہیں۔
تیسری ترجیح: گھر کی صفائی اور انتظام جوکہ ایک سلیقہ مند عورت کی پہچان ہے۔ اس مقصد کیلئے میں نے ایک ڈائری مخصوص کی اور اس میں بجٹ بنایا کہ اپنی تنخواہ کا کتنا پیسہ بچانا (Save) ہے اور کتنا خرچ کرنا ہے کیونکہ کرایہ کے گھر سے نکل کر اپنا گھر بنانا بھی میرا خواب تھا جو اللہ تعالیٰ نے میری کفایت شعاری‘ حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اپنی کرم نوازی سے جلد پورا کردیا۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف جس کیلئے میں نے قلم اٹھایا ہے اور اپنی زندگی کے تجربات بیان کرنا چاہتی ہوں یعنی کھانا پکانا اس سلسلے میں اگر ابتدائی کام کرکے رکھا جائے تو کھانا پکانا کچھ بھی مشکل نہیں۔ مثلاً آٹا گوندھنا ہوتو کافی سارا ایک ساتھ گوندھ لیا جائے اور پھر اسے تھیلیوں میں پیک کرکے فریزر میں رکھ دیا جائے اس طرح روزانہ کام پر جانے سے پہلے اور اسے فریزر سے فریج میں رکھ دیں جب آپ گھر آئیں گی تو آٹا نرم پڑچکا ہوگا لہٰذا اس کی روٹیاں بناکر دوبارہ فریزر میں رکھ دیں یا ہوسکے تو گوندھے ہوئے آٹے کی ایک وقت کی ضرورت کے مطابق چھوٹی چھوٹی کئی تھیلیاں بنالیں رات کیلئے دوسری تھیلی فریزر سے نکال کر فریج میں رکھ دیں تین چار گھنٹے کے بعد یہ بھی نرم پڑ جائے گی۔ اسی طرح بچی ہوئی روٹیاں بھی تہہ در تہہ یعنی بغیر موڑے پلاسٹک کی تھیلی میں رکھ کر فریز کردیں جو اس وقت کام آئیں گی جب آپ کے پاس ٹائم نہ ہو یا آپ تھکی ہوئی ہوں تو ایسے میں فریزر آپ کیلئے فوڈ بنک (Food Bank) کا کام دے گا اور روٹیاں نکال کر انہیں ہلکی آنچ پر یا توے پر گرم کرتی جائیں اور گھر والوں کو پیش کرتی جائیں یا اگر مائیکرو اوون ہوتو ایک ساتھ کئی روٹیاں اس میں گرم کی جاسکتی ہیں اور وہ تازہ جیسی لگتی ہیں۔ جہاں تک سالن بنانے کا تعلق ہے تو پہلے سے ابتدائی کام کرکے رکھیں۔ گوشت چاہے وہ مرغی کا ہو یا گائے اور بکرے وغیرہ کا اکٹھا منگوائیں چھٹی کے روز پھر اس سے چربی وغیرہ ہٹاکر دھوئیں اور چھلنی میں ڈال کر پیکٹ بناکر فریز کردیں یا پھر ایسا کریں جیسا کہ میں کرتی ہوں یعنی اس میں سے صاف بوٹیاں چن کر کباب بنانے کیلئے چڑھادیں‘ ہڈی والی بوٹیوں کی پلائو بنانے کیلئے یخنی بنادیں اور باقی گوشت میں مصالحے ملاکر گلانے کیلئے چولہے پر چڑھادیں۔ اب آپ کو جتنا پکانا ہو اتنا گوشت گلے ہوئے گوشت سے نکال کر بھون لیں اور سبزی ملاکر پکالیں باقی گوشت کو فریز کردیں کیونکہ اس سے بوقت ضرورت قورمہ یا شوربہ والا سالن بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح چھٹی والے دن کباب یا کوفتے وغیرہ بناکر فریز کردیں جو کبھی بھی بوقت ضرورت نکالے جاسکتے ہیں۔ دوسرے چھٹی کے دن یا جب بھی آپ کے پاس ٹائم ہو لہسن ادرک پیاز وغیرہ چھیل کر اور پیس کر رکھیں‘ ٹماٹر بھی گرائینڈر کرکے رکھے جاسکتے ہیں۔
ایک اچھی عادت جو ملازمت پیشہ خواتین کو اپنانا چاہئے وہ ہے وقت کا صحیح استعمال یعنی جب بھی آپ کے پاس گھر میں وقت ہو آپ اسے بے کار باتوں میں ضائع کرنے کے بجائے کھانے پکانے کے ابتدائی کام کرکے رکھیں مثلاً چاول‘ دالیں وغیرہ چن چن کر ڈبوں میں محفوظ کرکے رکھ لیں۔ اس طرح جب پکانا ہوں تو آپ کا چننے میں وقت ضائع نہیں ہوگا۔ دوسری سبزیاں وغیرہ جیسے میتھی پالک کے پتے بھی چن کر تھیلیوں میں پیک کرکے فریج کے نچلے خانے یعنی سبزی کے خانے میں رکھے جاسکتے ہیں۔ میں تو ایکسٹرا پیاز بھی چھیل کر سبزی کے خانے میں کاغذ میں لپیٹ کر رکھتی ہوں اس طرح کھانا بنانے میں بالکل بھی ٹائم نہیں لگتا ہے اور جاب سے آنے کے بعد پندرہ سے بیس منٹ میں کھانا تیار ہوجاتا ہے۔ امید ہے کہ میری اس تحریر سے ملازمت پیشہ خواتین کو جھٹ پٹ کھانا بنانے کے فن میں رہنمائی ملے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں